اشاعتیں

2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

٨٠ دن میں دنیا کا سفر (علی اسد)

تصویر
کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

کلک

تصویر
   ,, کلک ۔۔۔۔۔ Click ،،  سکولوں میں چھوٹے بچوں کی چوری چھپے ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ کرنے کا رواج خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اس سرگرمی میں ٹیچرز ملوث ہیں ۔  آپ جب اپنے بچے کو پرائیویٹ سکول میں داخل کرواتے ہیں تو داخلہ فیس کے ساتھ بھاری  سیکیورٹی فیس بھی جمع کرواتے ہیں ۔ یہ دس ہزار سے ایک لاکھ تک ہے۔   تاکہ دوران تعلیم آپ کا بچہ اگر سکول کی پراپرٹی یا ساکھ کو نقصان پہنچائے تو رقم کی صورت میں وہ ضبط کرنے کا آپشن رکھتے ہوں ۔  آپ نے کبھی بچہ داخل کرواتے وقت ، بچے کی سیکیورٹی کی ضمانت لی ؟ اس سکول میں بچے کی ساکھ ، ذات ، جذبات کو نقصان پہنچا تو سکول کیا ہرجانہ ادا کرے گا؟  نہیں ۔۔۔ کبھی ہم نے اس نہج پر سوچا ہی نہیں ، ہم صرف نمبروں ، حاضریوں ، کتابوں اور نصاب کی بات کرتے ہیں ۔ آپ نے داخلہ کرواتے وقت کبھی سکول کو پابند کیا کہ کوئی ٹیچر بلاجازات آپ کے بچے کی ویڈیو نہیں بنائے گا ؟ بھلے بچہ کتنا ہی کیوٹ ، معصوم اور تیز ہو ۔۔۔  وہ سکول جو اپائنٹمنٹ کے بغیر آپ کو ٹیچر سے ملاقات نہیں کرنے دیتے ، آپ کو کلاس رومز کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں دیتے ، آپ سکول کے احاطے میں موبائل سے ایک

رسی

تصویر
محترم جمیل جالبی صاحب کے یہاں ایک مرتبہ کسی صاحب نے فرمایا کہ ”رسی پر کپڑے سوکھنے کو ڈالے ہوئے تھے“ صدیقی صاحب مرحوم نے فوراً ٹوکا کہ اس کو رسی نہیں ‘الگنی’ بولتے ہیں۔پھر جمیل صاحب سے مخاطب ہو کر بولے رسی کو بلحاظِ استعمال مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔مثلا گھوڑے یا گھوڑی کو جب چرنے کیلئے چھوڑا جاتا تو اس ڈر سے کہ کہیں بھاگ نہ جائے اس کی اگلی ٹانگوں میں رسی باندھ دیتے ہیں اسے ‘دھنگنا’ کہتے ہیں۔ گھوڑے کو جب تھان پر باندھتے ہیں تو گلے اور پچھلی ٹانگوں میں جو رسیاں باندھی جاتی ہیں وہ ‘اگاڑی’ ‘پچھاڑی’ کہلاتی ہیں۔گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر سوار جو رسی پکڑتا ہے وہ ‘لگام’ کہلاتی ہے اور گھوڑا یا گھوڑے تانگے اور بگھی وغیرہ میں جُتے ہوں تو یہ رسی ‘راس’ کہلاتی ہے۔اس لیے پرانے زمانے میں گھوڑے کی خرید و فروخت کیلئے جو رسید لکھی جاتی تھی اس پہ یہ الفاظ لکھے جاتے تھے ‘یک راس گھوڑے کی قیمت’ اور ہاتھی کیلئے ‘یک زنجیر ہاتھی’ استعمال ہوتا تھا۔گھوڑے کو جب ٹریننگ کیلئے سائیسں پھراتا ہے اور جسے ‘کاوا پھرانا’ بولتے ہیں۔اُس رسی کو جو سائیں اس وقت پکڑتا ہے اسے ‘باگ ڈور’ کہتے ہیں۔پھر مرحوم نے کہا بیل کے ناک کے نتھ

گدھے کی فکر۔ ۔ ۔ علی عمران جونیئر

تصویر
  دوستو بند  دکان کے تھڑے پر بیٹھے دو بوڑھے آپس میں باتیں کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ ایک متجسس راہگیر نے ان سے اتنا خوش ہونے کی وجہ پوچھ لی۔ ایک بوڑھے نے بمشکل اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا۔۔ ہمارے پاس اس ملک کے مسائل حل کرنے کیلیے ایک شاندار منصوبہ ہے۔ اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ ساری قوم کو جیل میں ڈال دیا جائے اور ان سب کے ساتھ ایک گدھا بھی جیل میں ڈالا جائے۔ ۔راہگیر نے حیرت سے دونوں کو دیکھا اور پوچھا۔۔ ان سب کے ساتھ ایک گدھے کو کیوں قید کیا جائے؟دونوں بوڑھوں نے فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھا، اور ایک بوڑھے نے دوسرے سے کہا۔۔دیکھا نورے، آگیا یقین تجھے میری بات پر، میں نہیں کہتا تھا کہ بخدا اس قوم کے بارے میں کوئی بھی نہیں پوچھے گا۔ کسی کو قوم کا خیال نہیں آتا، سب کو گدھے کا خیال آتا ہے۔ باباجی فرمارہے تھے۔۔ پاکستان میں تحریک انصاف واحد ایسی سیاسی جماعت ہے جس کی خواتین ’’ٹوپیاں‘‘ پہنتی ہیں اور مرد’’دوپٹے ‘‘ ۔۔ ایک شخص نے پرائم منسٹر سیکرٹریٹ فون کیا تو اس سے پوچھا گیا کہ آپ کی کیا مدد کی جا سکتی ہے؟وہ بولا۔۔ میں وزیراعظم بننا چاہتا ہوں۔۔پرائم منسٹر سیک

چِٹھی‘ ہندوستان سے انگلستان پہنچ کر 'Chit' کیسے بن گئی؟

تصویر
کیوں نہ آجائے مہکنے کا ہنر لفظوں کو  تیری چِٹھی جو کتابوں میں چُھپا رکھی ہے  کتابوں میں چِٹھی چُھپانا، پھر اُسے چُھپ چُھپ کر پڑھنا عُشّاق کا پرانا مشغلہ ہے، مگر یار لوگ اب چِٹھی نہیں لکھتے ’واٹس اپ‘ کرتے ہیں کہ ’یہ خط لکھنا تو دقیانوس کی پیڑھی کا قصہ ہے۔‘  یوں توں پیغام رسانی کے انوکھے طریقوں نے چِٹھی کی چُھٹی کردی ہے، مگر چِٹھی اپنے مترادفات سندیس، پتر، خط، نامہ، نوشتہ، عریضہ، رقعہ، مراسلہ، مرقومہ اور مکتوب وغیرہ کے ساتھ کاروبارِ شہریاری اور زبان و بیان میں اب بھی جاری ہے۔  ہندوستان آنے اور چھا جانے والے فرنگیوں نے اس سرزمین سے جو کچھ دساور بھیجا اُس میں یہاں کی مقامی بولیوں اور بھاشاؤں کے الفاظ بھی شامل تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ جو گورا صاحب بھی یہاں آتا وہ عوامی بولی ٹھولی کا کوئی نہ کوئی لفظ  بھی ساتھ لے جاتا، یوں سنسکرت، ہندی، اردو اور اردو میں مستعمل عربی و فارسی الفاظ کے علاوہ تامل، تیلگو، ملیالم، کنّاڈا، مراٹھی اور گجراتی زبانوں کے قابلِ ذکر الفاظ انگلستان پہنچے اور ادبی وعوامی زبان کا جُز بن گئے۔  ’چِٹھی‘ بھی ایسا ہی لفظ ہے جو انگریزی میں بصورت 'Chit' رائج ہے، جو پرچی اور رق

تلاش گمشدہ (محمد جمیل اختر)

تصویر
کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔  

بیاض عمر (ڈاکٹر ستیہ پال آنند)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔
تصویر
   نامور افسانہ نگار کرشن چندر کی آج 45 ویں برسی ہے۔ وہ 1914 میں پیدا ہوئے اور8 مارچ 1977 کو انتقال ہوا۔ تصویر میں ان کے ساتھ ان کی اہلیہ سلمیٰ صدیقی ہیں جو مشہور ادیب رشید احمد صدیقی کی صاحبزادی تھیں، ان کا 13 فروری2017 کو85 برس کی عمر میں انتقال ہوا۔ ان کے صاحبزادے مُنیر اس سے چند سال پہلے فوت ہوگئے تھے۔ کرشن سے 18 سال چھوٹی تھیں ۔ کرشن چندر کی پیدائش 23 نومبر 1914 کو وزیر آباد میں ہوئی. ان کے والد ڈاکٹر گوری شنکر چوپڑا میڈیکل آفیسر تھے ۔ کرشن چندر نے  تعلیم کا آغاز اردو اور فارسی سے کیا تھا، اس لئے اردو پر ان کی گرفت کافی اچھی تھی۔ انہوں نے 1929 میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی اور 1935 میں انگریزی میں ایم اے کیا۔ کرشن چندر نے پنجاب اور کشمیر میں ہوش سنبھالا ۔ ان کے افسانوں کے موضوعات اس دور کے معاشی، سیاسی اور سماجی صورت حال کی خامیوں، بیجا رسم و روایات، مذہبی تعصبات، آمرانہ نظام اور تیزی سے اُبھرتے ہوئے دولت مند طبقہ کے منفی اثرات وغیرہ تھے ۔ ’کالو بھنگی‘، ’مہالکشمی کا پل‘ اور ’ایک گدھے کی سرگزشت‘ وغیرہ ان کی ناقابل فراموش کہانیاں ہیں۔ گوپی چند نارنگ کہتے ہیں ”کرشن چندر اردو افسانے
تصویر
 کمرے میں ہے بکھرا ہوا سامان وغیرہ خط،خواب،کتابیں،گل و گلدان وغیرہ ان میں سے کوئی ہجر میں امداد کو آئے جن،دیو،پری،خضر یا لقمان وغیرہ تو آئے تو گٹھڑی میں تجھے باندھ کے دے دوں دل،جان،نظر،سوچ یہ ایمان وغیرہ بس عشق کے مرشد سے ذرا خوف زدہ ہوں جھیلے ہیں بہت ویسے تو نقصان وغیرہ

وقت کی رفتار (احمد حسین مجاہد)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

پھیکی دھوپ (سرور غزالی)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

اردو املا کا مسئلہ (اطہر ہاشمی)

  ماہرینِ لسانیات کئی بار یہ تجویز پیش کرچکے ہیں کہ اخبارات اور کتابوں میں اردو املا میں جو تضاد پایا جاتا ہے اُسے دور کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے اردو کے لیے کام کرنے والے ادارے اور ماہرینِ لسانیات کوئی انجمن یا کمیٹی بنا کر کام کریں اور جہاں تضاد پایا جاتا ہے، اُسے دور کرکے کسی ایک املا پر اتفاق کیا جائے اور اس اتفاق کو عام بھی کیا جائے۔ آج کل دھماکا، دھوکا، معرکہ جیسے الفاظ اخبارات میں مختلف املا سے لکھے جارہے ہیں، مثلاً دھماکہ، دھوکہ وغیرہ۔ ایک بہت سینئر صحافی اور کالم نگار جناب عبدالقادر حسن نے تو 25 مئی کے اپنے کالم میں معرکہ بھی الف سے سر کیا، یعنی ’’معرکا۔‘‘ شاید وہ دھوکا، دھماکا سے متاثر ہوکر معرکہ کو بھی اسی صف میں لے آئے۔ یہ سہوِ کاتب یا کمپوزنگ کی غلطی نہیں، کیونکہ اس کالم میں یہ ’معرکا‘ کئی جگہ آیا ہے۔ عبدالقادر حسن کا شمار اُن کالم نگاروں اور ادیبوں میں ہوتا ہے جن کو پڑھ کر ہم نے اردو سیکھی ہے۔ سیکھنے کا عمل تو آخری سانس تک جاری رہتا ہے، بشرطیکہ سیکھنے کی جستجو بھی ہو۔ 28 مئی کو جسارت کی طرف سے مشاعرہ ہوا جس میں محترم انورشعور بھی تشریف لائے تھے۔ دورانِ گفتگو انہوں نے بتایا

محبت گھیر لیتی ہے۔ (زکریا شاذ)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔
تصویر
 

ہوگا کوئی ایسا بھی جو غالب کو نہ جانے ۔.

تصویر
لوگ بھولیں نہ کبھی ایسا تخلص رکھیے نام تو نام ہے بس نام میں کیا رکھا ہے گُر کی یہ بات بتانے والے شاعر کا نام ’غوث محی الدین احمد‘ ہے، تاہم دنیا انہیں نام سے نہیں بلکہ اُن کے اچھوتے تخلص ’خواہ مخواہ‘ سے جانتی ہے۔ ’خواہ مخواہ‘ کے لفظی معنی کیا ہیں اور عام بول چال میں یہ کن معنی میں برتا جاتا ہے، اس کا ذکر کسی اور نشست کے لیے اٹھا رکھتے ہیں، فی الوقت لفظ ’تخلص‘ پر بات کرتے ہیں۔ ’تخلص‘ عربی زبان کا لفظ ہے، اس کے لفظی معنی ’نجات پانا یا آزاد ہونا‘ کے ہیں، پھر اسی رعایت سے ’جُدا ہونا‘ بھی اس کے مفہوم میں داخل ہے۔ ’تخلص‘ بنیادی طور پر ’خالص‘ سے متعلق ہے، اور خالص کے معنی ’بے کھوٹ اور کھرا‘ کے ہیں۔ معنی کی یہی رعایت اِس سے مشتق الفاظ مثلاً خلوص، اخلاص اور مخلص میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے کا ایک لفظ ’خلاصہ‘ بھی ہے۔   ’خلاصہ‘ کے معنی کسی بھی چیز کے مغز اور جوہر کے ہیں۔ کسی مضمون یا گفتگو کے خلاصہ کا مطلب اس کا ’حاصل کلام‘ بیان کرنا ہوتا ہے۔ ’خلاصہ‘ کے معنی میں ’ماحصل، لُبِ لُباب اور بہترین‘ بھی شامل ہیں۔ معنی و مفہوم کی مناسبت سے خلاصہ کو غلط طور پر ’ملخص و تلخیص‘ کا ہم جنس سمجھا آتا ہے۔ غور

شگوفے (علی عمران جونیئر)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

خوابوں کا تاجر (محمد فاروق سنبھلی)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

مجموعہ منشی پریم چند (منشی پریم چند)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

کنکری (انتظار حسین)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

گلدستہ پنچ (پنڈت کشن پرشاد کول بی۔اے)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

دنیا کے براعظم (فخرالہدیٰ ایم۔اے)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

قومی ترانہ

تصویر
 

انتخاب احمد راہی (فخرالہدیٰ ایم۔اے)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

الاؤ (ایم۔مبین)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

اردو ماہیئے (قاضی اعجاز محور)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

زنجیر کا نغمہ (انجم عثمانی)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

مرے سوز دل کو ہوا نہ دے (کلیم عاجز)

تصویر
کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔  

بے گناہ (مرزا امجد بیگ ایڈوکیٹ )

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

آئینہ خانہ (مرزا امجد بیگ ایڈوکیٹ)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

بازی گر (مرزا امجد بیگ ایڈوکیٹ)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

کاغذی کرنسی ابدی غلامی (فخرالہدیٰ ایم۔اے)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

مجھے تلاش کرو (فخرالہدیٰ ایم۔اے)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

اردو کی کہانی (احتشام حسن)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

اودھ پنچ (پنڈت برج نرائن چکبست لکھنوی)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

نایاب ہیں ہم (شاد عظیم آبادی)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

املا نامہ (گوپی چند نارنگ)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

اصلاح زبان اردو (محمد عبدالروؤف عشرت لکھنوی)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

اردو اصناف ادب (عطا الرحمٰن نوری)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

اردو کلاسک جلد پنجم (فخرالہدیٰ ایم۔اے)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

جدید علم العروض (پروفیسر عبدالمحید ایم۔اے)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

مکروہ پہاڑ (فخرالہدیٰ ایم۔اے)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوط کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

ملنگ (صفدر شاہین)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

ممتاز مفتی کے بہترین افسانے (فخرالہدیٰ ایم۔اے)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

منٹو نامہ (فخرالہدیٰ ایم۔اے)

تصویر
کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔  

توتا یا طوطا (ڈاکٹر رؤوف پاریکھ)

تصویر
ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺻﮯ ﻗﺒﻞ  ﻟﻔﻆ ’’ ﺗﻮﺗﺎ ‘‘ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﭼﻼ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮨﺮﮮ ﺭﻧﮓ ﮐﮯ ﺍﺱ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﮐﺎ ﺩﺭﺳﺖ ﺍﻣﻼ ’’ ﺕ ‘‘ ﺳﮯ ﺗﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ’’ ﻁ ‘‘ ﺳﮯ ﻃﻮﻃﺎ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ . ﺍﮔﺮﭼﮧ ﯾﮧ ﻏﻠﻂ ﺍﻣﻼ ﯾﻌﻨﯽ ﻃﻮ ﺋﮯ ‏( ﻁ ‏) ﺳﮯ ﻃﻮﻃﺎ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺭﺍﺋﺞ ﮨﮯ ۔ ﺑﻘﻮﻝ ﺭﺷﯿﺪ ﺣﺴﻦ ﺧﺎﮞ، ﺍﺭﺩﻭ ﮐﮯ ﺍﮨﻢ ﻟﻐﺖ ﻧﮕﺎﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﮐﺮﺩﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ’’ ﻃﻮﻃﺎ ‘‘ ﻏﻠﻂ ﺍﻣﻼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ’’ ﺗﻮﺗﺎ ‘‘ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔ ‏( ﺍﺭﺩﻭ ﺍﻣﻼ ، ﺹ۱۳۱ ‏) ۔ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﻝ ﯾﮧ ﺍﭨﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﮭﺮ ﻃﻮﻃﯽ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﮔﺎ ؟ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﮔﺮ ﻟﻔﻆ ﺗﻮﺗﺎ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻮﻧﺚ ﺗﻮﺗﯽ ﮨﻮﮔﯽ، ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﮯ ﻣﺤﺎﻭﺭﮮ ’’ ﻃﻮﻃﯽ ﺑﻮﻟﻨﺎ ‘‘ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﮔﺎ؟ ﺍﺳﮯ ﺗﻮﺗﯽ ﺑﻮﻟﻨﺎ ‏( ﺕ ﺳﮯ ‏) ﻟﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﯾﺎ ﻃﻮﻃﯽ ﺑﻮﻟﻨﺎ ‏( ﻁ ﺳﮯ ‏) ؟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ’’ ﻧﻘﺎﺭ ﺧﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻮﺗﯽ ‏( ﺕ ﺳﮯ ‏) ﮐﯽ ﺍٓﻭﺍﺯ ﮐﻮﻥ ﺳﻨﺘﺎ ﮨﮯ؟ ‘‘ ﻟﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﯾﺎ ’’ ﻧﻘﺎﺭ ﺧﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻃﻮﻃﯽ ‏( ﻁ ﺳﮯ ‏) ﮐﯽ ﺍٓﻭﺍﺯ ﮐﻮﻥ ﺳﻨﺘﺎ ﮨﮯ؟ ‘‘ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ؟ ﻧﯿﺰ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺗﻮﺗﯽ؍ﻃﻮﻃﯽ ﺑﻮﻟﺘﯽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺗﻮﺗﯽ؍ﻃﻮﻃﯽ ﺑﻮﻟﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ؟ ﻋﺮﺽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﯽ ﻣﺘﺪﺍﻭﻝ ﻟﻐﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺿﻤﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺩﺭﺝ ﮨﯿﮟ۔ ﺳﺒﺰ ﺭﻧﮓ ﮐﮯ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﮐﮯ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻟﻔﻆ ’’ ﺗﻮﺗﺎ ‘‘ ﮨﮯ ‏( ﺗﮯ ﺳﮯ ‏) ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺎﻧﯿﺚ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ’’ ﺗﻮﺗ

اردو کلاسک جلد چہارم (فخرالہدیٰ ایم۔اے)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

طاغوت (مسعود جاوید)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

جلتا کفن (ریاض احمد)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

اردو کلاسک جلد سوم (فخرالہدیٰ ایم۔اے)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

نظم لکھتی ہے تجھے (ایوب خاور)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

کشاف تنقیدی اصطلاحات (ابوالاعجاز حفیظ صدیقی)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔