نامور افسانہ نگار کرشن چندر کی آج 45 ویں برسی ہے۔


وہ 1914 میں پیدا ہوئے اور8 مارچ 1977 کو انتقال ہوا۔ تصویر میں ان کے ساتھ ان کی اہلیہ سلمیٰ صدیقی ہیں جو مشہور ادیب رشید احمد صدیقی کی صاحبزادی تھیں، ان کا 13 فروری2017 کو85 برس کی عمر میں انتقال ہوا۔ ان کے صاحبزادے مُنیر اس سے چند سال پہلے فوت ہوگئے تھے۔ کرشن سے 18 سال چھوٹی تھیں ۔


کرشن چندر کی پیدائش 23 نومبر 1914 کو وزیر آباد میں ہوئی. ان کے والد ڈاکٹر گوری شنکر چوپڑا میڈیکل آفیسر تھے ۔ کرشن چندر نے  تعلیم کا آغاز اردو اور فارسی سے کیا تھا، اس لئے اردو پر ان کی گرفت کافی اچھی تھی۔ انہوں نے 1929 میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی اور 1935 میں انگریزی میں ایم اے کیا۔

کرشن چندر نے پنجاب اور کشمیر میں ہوش سنبھالا ۔ ان کے افسانوں کے موضوعات اس دور کے معاشی، سیاسی اور سماجی صورت حال کی خامیوں، بیجا رسم و روایات، مذہبی تعصبات، آمرانہ نظام اور تیزی سے اُبھرتے ہوئے دولت مند طبقہ کے منفی اثرات وغیرہ تھے ۔ ’کالو بھنگی‘، ’مہالکشمی کا پل‘ اور ’ایک گدھے کی سرگزشت‘ وغیرہ ان کی ناقابل فراموش کہانیاں ہیں۔

گوپی چند نارنگ کہتے ہیں ”کرشن چندر اردو افسانے کی روایت کا ایک ایسا لائق احترام نام ہے جو ذہنوں میں برابر سوال اٹھاتا رہے گا. کرشن چندر 1955-60 تک اپنا بہترین ادب تخلیق کر چکے تھے۔ ان کا نام پریم چند کے بعد تین بڑے افسانہ نگاروں میں آئے گا“۔

کرشن چندر  محبت کے جذبہ اور احساس کو بھی پورے انہماک اور حساسیت کے ساتھ اپنی کہانیوں میں پیش کرتے تھے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے، اسی لئے عام انسان کے حقوق کی بات کرتے تھے۔ ان کے دل میں امیروں کے تئیں بغاوت اور بدلے کا جذبہ تھا۔

’زندگی کے موڑ پر‘ اور ’بالکونی‘ جیسے رومانی افسانے نہ صرف جذباتی ہیں بلکہ قاری کو سوچنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔ محمد حسن عسکری نے لکھا – ” کرشن چندر کی رومانیت دوسروں سے کافی مختلف ہے۔ وہ رومان کی تلاش میں ہجرت کر کے مالدیپ نہیں جاتا بلکہ یہ کوشش کرتا ہے کہ روز مرہ کی زندگی میں رومان کے امکانات ہیں یا نہیں۔ درحقیقت یہ افسانے رومانی نہیں ہیں بلکہ رومان کے چہرے سے نقاب اٹھاتے ہیں“۔

کرشن چندر نے ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات پر بھی کئی افسانے لکھے جن میں ’اندھے‘، ’لال باغ‘، ’جیکسن‘، ’امرتسر‘ اور ’پشاور ایکسپریس‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان افسانوں میں کرشن چندر نے اس وقت کی سیاست کے عوام مخالف کرداروں پر بلاجھجک اظہار خیال  کرتے ہوئے انسانی رشتوں اور انسانیت کی حق میں آواز اٹھائی۔


کرشن چندر  کی ایک شاہکار تصنیف ہے ’ایک گدھے کی سرگزشت‘۔ جس میں ملک کی سیاست، حکومت اور سرکاری دفاتر کے ماحول اور کرداروں سے دلچسپ انداز میں روشناس کرایا ہے۔ اس مزاحیہ تصنیف کا اہم کردار ایک گدھا ہے جسے کرشن چندر نے  محنت کش اور مزدور طبقہ کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔  یہ مزاحیہ ناول رسالہ ’شمع‘ میں قسط وار شائع ہوا تھا. یہ ختم ہوا تو لوگوں نے اصرار کیا کہ اس کو مزید آگے بڑھایا جائے۔ جس پر کرشن چندر نے ’گدھے کی واپسی‘ کے عنوان سے ایک نیا ناول تحریر کیا۔ بعد ازاں انہوں نے تیسراناول ’ایک گدھا نیفا میں‘ بھی تحریر کیا۔ ان تینوں ہی ناولوں نے بے انتہا مقبولیت حاصل کی اور اردو، ہندی کے علاوہ متعدد زبانوں میں ان کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔


کرشن چندر کے ناولوں کی تعداد چالیس سے زائد ہے۔شکست، میری یادوں کے چنار، دل کی وادیاں سو گئیں،جب کھیت جاگے،ایک عورت ہزار دیوانے،دادرپل کے بچے(ناولٹ)زر گاؤں کی رانی ناولٹ)،مٹی کے صنم ،سٹرک واپس جاتی ہے ،سپنوں کی وادی، کارنیوال ،فٹ پاتھ کے فرشتے،ایک عورت ہزار دیوانے،محبت بھی قیامت بھی زیادہ مشہور ہیں.


کرشن چندر کے چھوٹے بھائی مہندر ناتھہ نے بھی اردو افسانہ نگاری میں ایک نئے اسلوب کے ساتھہ قدم رکھا تھا ۔ ان کی بہن سرلا دیوی نے بھی اردو افسانے لکھے۔ لیکن افسوس کہ انہوں نے اپنا ذہنی توازن کھو دیا جس کے سبب پڑھنا لکھنا سب کچھ ختم ہو گیا۔ سرلا دیوی کے شوہر ریوتی شرن شرما بھی سٹیج ڈرامے کی مشہور شخصیت تھے۔


کرشن چندر نے کئی فلموں کی کہانیاں، منظرنامے اور مکالمے تحریر کئے۔ان میں ’دھرتی کے لال‘، ’دل کی آواز‘، ’دو چور‘، ’دو پھول‘، ’من چلی‘، ’شرافت‘ شامل ہیں۔


8 مارچ 1977 کو وہ ’ادب برائے بطخ‘  کے عنوان سے ایک طنزیہ مضمون لکھ رہے تھے۔ اتنا لکھا تھا

’نورانی کو بچپن سے ہی پالتو جانوروں کا شوق تھا، کبوتر، بندر، رنگ برنگی چڑیاں۔۔۔‘ ۔۔۔۔۔۔   کہ حرکت قلب بند ہوگئی.

کرشن کے انتقال کے بعد سلمیٰ صدیقی نے ’’ نہ گُل کھِلے ، نہ ان سے ملے‘‘ کے عنوان سے یادیں لکھی تھیں۔  بھارتی اخباروں میں قسطیں پڑھی تھیں ، کچھ تراشے  بھی شاید کہیں رکھے ہوں ، کتاب چھپی یا نہیں ، معلوم نہیں۔


محمد ہاشم کو ایک خط میں سلمیٰ صدیقی لکھتی ہیں ’’ہماری شادی 7 جولائی 1961ء کی شام نینی تال میں ہوئی، اس وقت نینی تال کی مسجد کے مولانا نے نکاح پڑھایا۔۔۔ گواہوں میں رامپور کے دو دوست، مہارانی جہانگیر آباد اور محمد کاظمی تھے۔ کرشن چندر نے اسلامی طریقہ پر نکاح کیا اور مسلمان ہونا قبول کیا، اپنا نام وقار ملک رکھا‘‘۔


جب کرشن چندر نے وقار ملک کا نام خود تجویز کیا تو سلمیٰ نے جھنجھلا کر کہا۔۔۔ یہ ب...ھی کوئی نام ہے تو کرشن چندر کھڑکی سے باہر دھندلاتی ہوئی پہاڑیوں کو دیکھتے ہوئے بولے، جب میں پونچھ میں چوتھی جماعت میں تھا تو میرے دو دوست تھے۔ ایک کا نام وقار تھا اور دوسرے کا ملک۔۔۔ ہم ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے رہتے تھے۔۔۔ میں نے پہلی بار غالب کا شعر اس گھر میں سنا تھا۔۔۔ عید کی پہلی سویاں وہیں چکھی تھیں، شامی کباب اور بریانی کا ذائقہ وہیں جانا تھا، خاصدان سے پان کی گلوری وہیں اٹھائی تھی اور گھر آ کے ماں جی سے خوب جھگڑا کیا تھا کہ ہمارے گھر میں عید کیوں نہیں منائی جاتی۔۔۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

موٹیویشنل کالم ( علی عمران جونیئر)