ماہرینِ لسانیات کئی بار یہ تجویز پیش کرچکے ہیں کہ اخبارات اور کتابوں میں اردو املا میں جو تضاد پایا جاتا ہے اُسے دور کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے اردو کے لیے کام کرنے والے ادارے اور ماہرینِ لسانیات کوئی انجمن یا کمیٹی بنا کر کام کریں اور جہاں تضاد پایا جاتا ہے، اُسے دور کرکے کسی ایک املا پر اتفاق کیا جائے اور اس اتفاق کو عام بھی کیا جائے۔ آج کل دھماکا، دھوکا، معرکہ جیسے الفاظ اخبارات میں مختلف املا سے لکھے جارہے ہیں، مثلاً دھماکہ، دھوکہ وغیرہ۔ ایک بہت سینئر صحافی اور کالم نگار جناب عبدالقادر حسن نے تو 25 مئی کے اپنے کالم میں معرکہ بھی الف سے سر کیا، یعنی ’’معرکا۔‘‘ شاید وہ دھوکا، دھماکا سے متاثر ہوکر معرکہ کو بھی اسی صف میں لے آئے۔ یہ سہوِ کاتب یا کمپوزنگ کی غلطی نہیں، کیونکہ اس کالم میں یہ ’معرکا‘ کئی جگہ آیا ہے۔ عبدالقادر حسن کا شمار اُن کالم نگاروں اور ادیبوں میں ہوتا ہے جن کو پڑھ کر ہم نے اردو سیکھی ہے۔ سیکھنے کا عمل تو آخری سانس تک جاری رہتا ہے، بشرطیکہ سیکھنے کی جستجو بھی ہو۔ 28 مئی کو جسارت کی طرف سے مشاعرہ ہوا جس میں محترم انورشعور بھی تشریف لائے تھے۔ دورانِ گفتگو انہوں نے بتایا