اشاعتیں

موٹیویشنل کالم ( علی عمران جونیئر)

تصویر
  دوستو،شکست کے بعدراجہ پورس کو زنجیروں میں جکڑکرسکندرِاعظم کے روبرو پیش کیا گیا تو سکندر اعظم نے شاہانہ انداز میں پوچھا ۔۔بتاؤ تمہارے ساتھ کیاسلوک کیا جائے ؟ پھر اس کا جواب راجہ پورس نے جو دیا وہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا گیا۔پورس نے ماتھے پر سے بالوں کی لٹ کو پھونک مار کر ہٹایا اور بولا۔۔ وہی جو پاکستان کی عدالتیں توشہ خان کے ساتھ کرتی ہیں ۔۔سکندر نے پورس کو بغور دیکھا اور مڑکر دھیرے سے بولا۔۔ ایہدی ضمانت منظور کر کے مرسیڈیز تے گھر چھڈ آؤ۔۔۔ آج کی اوٹ پٹانگ باتیں آپ احباب کو موٹیویٹ کرنے کے لئے ہیں۔ ان باتوں پر دماغ کھپانے کی قطعی ضرورت نہیں۔۔نیویارک کا ایک مشہور و معروف وکیل ٹیکساس کے دیہی علاقے میں مرغابی کا شکار کرنے گیا۔ اس نے ایک مرغابی کو گولی مار کر گرا تو دیا لیکن بدقسمتی سے وہ باڑ کی دوسری طرف ایک کسان کے کھیت میں جا گری۔ جیسے ہی وکیل باڑ پر چڑھا، ایک بوڑھا کسان اپنے ٹریکٹر پرنمودار ہوا اور سوال کیا کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟وکیل نے جواب دیا، میں نے ایک مرغابی کو گولی ماری اور وہ اس کھیت میں گر گئی، اب میں اسے لینے جا رہا ہوں۔بوڑھے کسان نے جواب دیا۔ یہ کھیت میری ملکیت ہے ا

٨٠ دن میں دنیا کا سفر (علی اسد)

تصویر
کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔

کلک

تصویر
   ,, کلک ۔۔۔۔۔ Click ،،  سکولوں میں چھوٹے بچوں کی چوری چھپے ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ کرنے کا رواج خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اس سرگرمی میں ٹیچرز ملوث ہیں ۔  آپ جب اپنے بچے کو پرائیویٹ سکول میں داخل کرواتے ہیں تو داخلہ فیس کے ساتھ بھاری  سیکیورٹی فیس بھی جمع کرواتے ہیں ۔ یہ دس ہزار سے ایک لاکھ تک ہے۔   تاکہ دوران تعلیم آپ کا بچہ اگر سکول کی پراپرٹی یا ساکھ کو نقصان پہنچائے تو رقم کی صورت میں وہ ضبط کرنے کا آپشن رکھتے ہوں ۔  آپ نے کبھی بچہ داخل کرواتے وقت ، بچے کی سیکیورٹی کی ضمانت لی ؟ اس سکول میں بچے کی ساکھ ، ذات ، جذبات کو نقصان پہنچا تو سکول کیا ہرجانہ ادا کرے گا؟  نہیں ۔۔۔ کبھی ہم نے اس نہج پر سوچا ہی نہیں ، ہم صرف نمبروں ، حاضریوں ، کتابوں اور نصاب کی بات کرتے ہیں ۔ آپ نے داخلہ کرواتے وقت کبھی سکول کو پابند کیا کہ کوئی ٹیچر بلاجازات آپ کے بچے کی ویڈیو نہیں بنائے گا ؟ بھلے بچہ کتنا ہی کیوٹ ، معصوم اور تیز ہو ۔۔۔  وہ سکول جو اپائنٹمنٹ کے بغیر آپ کو ٹیچر سے ملاقات نہیں کرنے دیتے ، آپ کو کلاس رومز کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں دیتے ، آپ سکول کے احاطے میں موبائل سے ایک

رسی

تصویر
محترم جمیل جالبی صاحب کے یہاں ایک مرتبہ کسی صاحب نے فرمایا کہ ”رسی پر کپڑے سوکھنے کو ڈالے ہوئے تھے“ صدیقی صاحب مرحوم نے فوراً ٹوکا کہ اس کو رسی نہیں ‘الگنی’ بولتے ہیں۔پھر جمیل صاحب سے مخاطب ہو کر بولے رسی کو بلحاظِ استعمال مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔مثلا گھوڑے یا گھوڑی کو جب چرنے کیلئے چھوڑا جاتا تو اس ڈر سے کہ کہیں بھاگ نہ جائے اس کی اگلی ٹانگوں میں رسی باندھ دیتے ہیں اسے ‘دھنگنا’ کہتے ہیں۔ گھوڑے کو جب تھان پر باندھتے ہیں تو گلے اور پچھلی ٹانگوں میں جو رسیاں باندھی جاتی ہیں وہ ‘اگاڑی’ ‘پچھاڑی’ کہلاتی ہیں۔گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر سوار جو رسی پکڑتا ہے وہ ‘لگام’ کہلاتی ہے اور گھوڑا یا گھوڑے تانگے اور بگھی وغیرہ میں جُتے ہوں تو یہ رسی ‘راس’ کہلاتی ہے۔اس لیے پرانے زمانے میں گھوڑے کی خرید و فروخت کیلئے جو رسید لکھی جاتی تھی اس پہ یہ الفاظ لکھے جاتے تھے ‘یک راس گھوڑے کی قیمت’ اور ہاتھی کیلئے ‘یک زنجیر ہاتھی’ استعمال ہوتا تھا۔گھوڑے کو جب ٹریننگ کیلئے سائیسں پھراتا ہے اور جسے ‘کاوا پھرانا’ بولتے ہیں۔اُس رسی کو جو سائیں اس وقت پکڑتا ہے اسے ‘باگ ڈور’ کہتے ہیں۔پھر مرحوم نے کہا بیل کے ناک کے نتھ

گدھے کی فکر۔ ۔ ۔ علی عمران جونیئر

تصویر
  دوستو بند  دکان کے تھڑے پر بیٹھے دو بوڑھے آپس میں باتیں کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ ایک متجسس راہگیر نے ان سے اتنا خوش ہونے کی وجہ پوچھ لی۔ ایک بوڑھے نے بمشکل اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا۔۔ ہمارے پاس اس ملک کے مسائل حل کرنے کیلیے ایک شاندار منصوبہ ہے۔ اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ ساری قوم کو جیل میں ڈال دیا جائے اور ان سب کے ساتھ ایک گدھا بھی جیل میں ڈالا جائے۔ ۔راہگیر نے حیرت سے دونوں کو دیکھا اور پوچھا۔۔ ان سب کے ساتھ ایک گدھے کو کیوں قید کیا جائے؟دونوں بوڑھوں نے فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھا، اور ایک بوڑھے نے دوسرے سے کہا۔۔دیکھا نورے، آگیا یقین تجھے میری بات پر، میں نہیں کہتا تھا کہ بخدا اس قوم کے بارے میں کوئی بھی نہیں پوچھے گا۔ کسی کو قوم کا خیال نہیں آتا، سب کو گدھے کا خیال آتا ہے۔ باباجی فرمارہے تھے۔۔ پاکستان میں تحریک انصاف واحد ایسی سیاسی جماعت ہے جس کی خواتین ’’ٹوپیاں‘‘ پہنتی ہیں اور مرد’’دوپٹے ‘‘ ۔۔ ایک شخص نے پرائم منسٹر سیکرٹریٹ فون کیا تو اس سے پوچھا گیا کہ آپ کی کیا مدد کی جا سکتی ہے؟وہ بولا۔۔ میں وزیراعظم بننا چاہتا ہوں۔۔پرائم منسٹر سیک

چِٹھی‘ ہندوستان سے انگلستان پہنچ کر 'Chit' کیسے بن گئی؟

تصویر
کیوں نہ آجائے مہکنے کا ہنر لفظوں کو  تیری چِٹھی جو کتابوں میں چُھپا رکھی ہے  کتابوں میں چِٹھی چُھپانا، پھر اُسے چُھپ چُھپ کر پڑھنا عُشّاق کا پرانا مشغلہ ہے، مگر یار لوگ اب چِٹھی نہیں لکھتے ’واٹس اپ‘ کرتے ہیں کہ ’یہ خط لکھنا تو دقیانوس کی پیڑھی کا قصہ ہے۔‘  یوں توں پیغام رسانی کے انوکھے طریقوں نے چِٹھی کی چُھٹی کردی ہے، مگر چِٹھی اپنے مترادفات سندیس، پتر، خط، نامہ، نوشتہ، عریضہ، رقعہ، مراسلہ، مرقومہ اور مکتوب وغیرہ کے ساتھ کاروبارِ شہریاری اور زبان و بیان میں اب بھی جاری ہے۔  ہندوستان آنے اور چھا جانے والے فرنگیوں نے اس سرزمین سے جو کچھ دساور بھیجا اُس میں یہاں کی مقامی بولیوں اور بھاشاؤں کے الفاظ بھی شامل تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ جو گورا صاحب بھی یہاں آتا وہ عوامی بولی ٹھولی کا کوئی نہ کوئی لفظ  بھی ساتھ لے جاتا، یوں سنسکرت، ہندی، اردو اور اردو میں مستعمل عربی و فارسی الفاظ کے علاوہ تامل، تیلگو، ملیالم، کنّاڈا، مراٹھی اور گجراتی زبانوں کے قابلِ ذکر الفاظ انگلستان پہنچے اور ادبی وعوامی زبان کا جُز بن گئے۔  ’چِٹھی‘ بھی ایسا ہی لفظ ہے جو انگریزی میں بصورت 'Chit' رائج ہے، جو پرچی اور رق

تلاش گمشدہ (محمد جمیل اختر)

تصویر
کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔  

بیاض عمر (ڈاکٹر ستیہ پال آنند)

تصویر
  کتاب پڑھنے یا محفوظ کرنے کے لیے یہاں دبائیں۔